چترا(احمد بن نذر)سو سالہ قدیم ترین تاریخ رکھنے والی دینی و علمی دانش گاہ جامعہ رشید العلوم چترا میں درسِ بخاری شریف کی تکمیل کے موقع پر بافیض اجلاس کے عنوان سے علمی مجلس کا انعقاد کیا گیا۔جس میں ریاست جھارکھنڈ کے علاوہ دیگر ریاستوں سے بھی علماء و عوام نے شرکت کی۔
ممتاز عالم دین حضرت مولانا و مفتی عبیداللہ اسعدی (شیخ الحدیث:جامعہ عربیہ،ہتورا،باندہ)نے بخاری شریف کا آخری درس دیتے ہوئے نہایت علمی گفتگو فرمائی اور کہا کہ ہر محدث بڑے درجے کا مجتہد ہوتا ہے اور امام بخاری جیسا محدث تو مجتہد ضرور ہوتا ہے۔ امام بخاری ان علماء اور مجتہدین میں سے ہیں جنہوں نے فقہ ، حدیث کے اصول و ضوابط وضع کیے ہیں۔ امام احمد کی مسند ، امام مالک کی مؤطا ، امام شافعی کی کتاب الام اور امام ابوحنیفہ نے کتاب الآثار لکھی ۔ امام بخاری کی دو کتابیں کتاب الاعتصام اور کتاب التوحید جن میں سے پہلے میں امام بخاری نے اصول فقہ بیان کیے ہیں اور دوسرے میں معرضہ ، معتزلہ وغیرہ کا رد ہے۔ مولانا زکریا کی رائے میں یہ ایک ہی کتاب ہے جس میں قواعد و اصول کو بیان کیا گیا ہے۔ ابن قیم نے لکھا ہے کہ انت کے دو طبقے جس نے دین و ایمان کی تحفظ کے لیے بڑا کام کیا ہے۔ ایک مجتہد اور دوسرا محدث۔ امام بخاری مقلد تھے یا غیر مقلد اس میں بھی سوال پیدا ہوتا ہے ، اگر مقلد تھے تو کس کے؟ میں کہتا ہوں کہ امام بخاری خود مجتہد اور محدث تھے ۔ ان کے اصول الگ تھے انہوں نے کئی قواعد و ضوابط وضع کیے ان کی اپنی رائے تھی تو وہ کسی کے پابند نہیں تھے۔ یہ صرف امام بخاری کے لیے کہا جاسکتا ہے دیگر کے لیے نہیں۔ نیک لوگوں کے مقدمے غلط فہمی کی بنیاد پر ہوتے تھے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مقدمے جو عدالتوں میں گئے وہ غلط فہمی کی بنیاد پر گئے۔ حشر میں کچھ لوگ صراط سے گزر تو جاییں گے لیکن ایک طرف کھڑے ہوجائیں گے آگے نہیں بڑھیں گے ۔ ان سے کہا جاے گا کہ تم پر فلاں کا دعویٰ ہے پہلے صفائی پیش کرو تب جنت میں جانا۔ اس سلسلے میں تو بحثیں ہیں کہ حشر میں دو پل ہونگے یا ایک۔ اگر کوئی سینگھ والی بکری نے بے سینگھ والی بکری کہ ناحق ماردیا تو اللہ قیامت کے دن اس کا بھی فیصلہ فرمائے گا ۔ اس سے مراد وہ بھی ہیں جو انسانی شکل میں جانور بنے ہوئے ہیں۔
صدر مجلس حضرت مولانا و مفتی نذر توحید صاحب المظاہری شیخ الحدیث و مہتمم مدرسہ جامعہ رشید العلوم چترا نے بخاری شریف کا آخری درس نہایت تفصیل کے ساتھ دیا جس میں انہوں نے حجیت حدیث کے منکرین کا رد کرتے ہوے فرمایا کہ انکا یہ کہنا کہ احادیث لکھنے کا سلسلہ حضور ﷺ کے وصال کے کئی صدی بعد شروع ہوا، غلط ہے۔ کیونکہ صحابہ کرام میں سب سے زیادہ احادیث کے راوی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ خود فرماتے ہیں کہ مجھ سے زیادہ روایات عمرو ابن العاص کے پاس تھے کیونکہ وہ لکھا کرتے تھے اور میں صرف حافظے سے کام لیتا تھا ۔
بخاری شریف کی اہمیت اور صاحب بخاری کی جلالت شان کو بیان کرتے ہوے انہوں نے بتلایا کہ بخاری شریف سے پہلے امام شافعی ؒبھی موءطا کو اصح الکتب تحت ادیم السماء بعد کتاب اللہ (یعنی آسمان کے نیچے کتاب اللہ کے بعد سب سے صحیح کتاب) فرمایا کرتے تھے،کیوںکہ اس وقت تک امام بخاری کا ترتیب دادہ یہ مجموعہ احادیث منصہ شہود پر نہیں آسکا تھا۔ لیکن بخاری شریف کے آنے کے بعد امت کا یہ اجماعی موقف رہا اور اب تلک ہے کہ یہ اصح الکتب بعد کتاب اللہ تعالی (یعنی اللہ تعالی کی کتاب کے بعد سب سے صحیح کتاب)ہے۔ امام بخاری ؒچھ لاکھ احادیث کے حافظ تھے، جس میں سے انہوں نے بڑی چھان پھٹک کے بعد اپنی اس جامع کیلئے مکررات کو حذف کر کے تقریبا پونے تین ہزار روایات انتخاب فرمایا۔امام بخاری کے حالات زندگی کے متعلق انہوں نے بیان فرمایا کہ ترتیب احادیث کا کام ابن شہاب زہریؒ نے امام بخاری ؒسے پہلے انجام دیا تھا مگر چونکہ اس میں انہوں نے ہو طرح کی روایات بلا تحقیق شامل کر لی تھی نیز اسے فقہی ترتیب پر مبوب بھی نہیں کیا گیا تھا ، اس لئے انکے مرتب کردہ مجموعہ احادیث کو علمی حلقوں میں قبول عام حاصل نہ ہو سکا ۔ گویا یوں کہا جاسکتا ہے کہ ترتیب احادیث کا کام خواہ پہلے ابن شہاب زہری نے کیا ہو ، مگر اس خوش اسلوبی اور عمدگی
مدرسہ مظاہر علوم،سہارنپور کے ناظم تعلیمات مولانا احمد سعیدی نے جامعہ کے مہتمم و شیخ الحدیث مفتی نذر توحید المظاہری سے اکابر مظاہر علوم،اور خصوصاً فقیہ الاسلام مفتی مظفر حسین رحمہ اللہ کی شفقت اور ان کے لطف و عنایت کا تذکرہ کیا اور طلبہ و عوام سے کہا کہ اپنا اصلاحی تعلق کسی اللہ والے سے ضرور قائم کریں اور رکھیں،اس کے بغیر عموماً تزکیہ قلب نہیں ہو پاتا۔
جامعہ کے استاذ حدیث مفتی ثناءاللہ مظاہری نے حدیث پاک “نضّرَاللہ امرأً…” کے متعلق کہا کہ یہ روایت 37 صحابہ اور 57 طرق سے مروی ہے۔ابن حبان نے “نضراللہ” کی جگہ “رحمہ اللہ” نقل کیا ہے،اس روایت کی تفصیلات ذکر کرنے کے بعد انہوں نے کہا کہ حدیث پاک کے بغیر قرآن پاک کو سمجھنا تقریباً ناممکن ہے۔بطور نمونہ انہوں نے قرآنی آیات کے اجمال اور احادیث مطہرہ میں موجود اس کی تفصیل بتا کر اسے مزید واضح بھی کیا۔طلبہ اور علماء کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہر مقام پر مختصر ہی سہی،درس حدیث کا انتظام کیا جائے،تاکہ عوام تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کے پہنچانے کا ایک وسیلہ وجود میں آ سکے۔
مولانا نوشاد احمد مظاہری(مرتب:فتاویٰ سعیدیہ مظاہر علوم،سہارنپور)نے طلبہ کو اپنے اساتذہ اور بزرگوں سے مربوط رہنے کی نصیحت فرمائی۔
ناظم اجلاس نے تعلیمی سال کے اختتام کے بجائے وسط سال میں تکمیل ختم بخاری کے تعلق سے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ جھارکھنڈ میں دوسرے لاک ڈاؤن کا خاتمہ بتدریج ہوا تھا،اول وہلے میں آٹھویں کلاس سے اوپر کے طلبہ کےلیے اسکول کھولے گئے تھے،چنانچہ علی ہذا القیاس مدرسے نے بھی پنجم تا دورہ کے طلبہ کو چار مہینے کےلیے بلا لیا تھا،پھر اس کے بعد تعلیمی سال کی ترتیب ادھر ادھر ہوئی،نتیجۃً ان کی بخاری اب پوری ہوئی ہے،البتہ اُس چار مہینے کے بعد یعنی شوال میں داخل ہونے والوں کے درس کی تکمیل ان شاءاللہ شعبان میں ہوگی۔
اجلاس کا آغاز احمد ارسلان کوڈرماوی کی تلاوت سے ہوا،پھر اس کے معاً بعد شمشاد لاتیہاری نے عربی میں اور وسیم لوہردگوی نے اردو میں نعت پاک پیش کی۔
: جامعہ سے جن طلبہ نے ابھی درس نظامی کی تکمیل کی،اور جن کے سروں پر اکابر علماء کے دستہائے مبارک سے دستار فضیلت باندھی گئی،ان کے اسماء یہ ہیں:مولوی محمد صداقت رشیدی(ہزاریباغ)،مولوی محمد شاداب رشیدی(بکچمہ،چترا)،مولوی محمد غزالی رشیدی(سمریا،چترا)،مولوی محمد عمران رشیدی(لاتیہار)،مولوی محمد فیصل رشیدی(برواڈیہہ،چترا)،مولوی احسن کریم رشیدی(چترا)،مولوی محمد آفتاب عالم رشیدی(چونی ڈیہہ،لاتیہار)،مولوی محمد اعظم رشیدی(چوتھا،چترا)،مولوی محمد ثقلین رشیدی (رانچی)،مولوی محمد جاوید عبداللہ رشیدی(چوتھا،چترا)،مولوی محمد پرویز عالم رشیدی(گریڈیہہ)،مولوی محمد زاہد حسین رشیدی(لوہردگا)،مولوی محمد اسعد حسین رشیدی(رانچی)،مولوی غلام مصطفی رشیدی (رانچی)،مولوی محمد عدنان ایوبی رشیدی(چترا)،مولوی محمد زید صدیقی رشیدی (رانچی)،مولوی محمد ابوصالح رشیدی(گریڈیہہ)،مولوی محمد علقمہ رشیدی (ہزاریباغ)،مولوی عبدالرقیب رشیدی (جامتاڑا)۔
اس موقع پر مفتی غلام رسول قاسمی(مہتمم:مدرسۃ البنات،پہرا،گریڈیہ)،مولانا مرتضیٰ مظاہری (استاذ:مظاہرالاسلام،سمریا)،قاری شمشیر(نوادہ)،مولانا واجد الفیضی،قاضی نسیم قاسمی(قاضی و مہتمم:مدرسہ خادم العلوم،حسن آباد،کوڈرما)وغیرہ نے بھی اظہار خیال کیا۔مدعوئین میں خصوصیت کے ساتھ شاہ عمیر(ڈائریکٹر شاہ ریسیڈینسی،رانچی و خازن جمعیۃ علماء جھارکھنڈ)،عادل رشید(روزنامہ عوامی نیوز،رانچی)مولانا فاروق قاسمی(امام:منی مسجد و مہتمم مدرسہ اسلامیہ،گیا)،مفتی عزیر مظاہری(استاذ:مدرسہ قاسمیہ،بلسوکرا)،مولانا اسماعیل قاسمی(گیا)،مولانا اکرم قاسمی(مہتمم جامعہ حسان بن ثابت،گریڈیہ)،مولانا رستم قاسمی(گریڈیہہ)،مولانا الیاس مظاہری(مہتمم:جامعہ عثمان بن عفان،کھوری مہوا،گریڈیہہ) وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں ہیں۔