مکی مسجد،کھوری مہوا میں منعقد تعزیتی نشست سے علماء کا اظہار خیال
قاری عابد حسین،مدرسہ حسینیہ رانچی کے ایک باوقار مدرس اور ہم سب کے محسن تھے۔قاری صاحب کی حیات مستعار کے بیش تر حصے میں خدمتِ قرآن کی سعادت آئی۔مذکورہ خیال کا اظہار جامعہ عثمان بن عفان،کھوری مہوا کے مہتمم مولانا محمد الیاس مظاہری نے کیا۔مزید انہوں نے کہا کہ ان کی چونتیس سالہ خدمات کا مدرسہ حسینیہ کا گوشہ گوشہ شاہد ہے۔
ان کے اندازِ تدریس،اور جداگانہ طرزِ تعلیم انہیں تحفیظِ قرآن کے اساتذہ میں انفرادیت بخشتا اور ممتاز حیثیت کا حامل بناتا ہے۔ان سے مستفید طلبہ ہندوستان اور اس کے قرب و جوار ہی نہیں،بلکہ اطرافِ عالم میں اپنی حافظانہ شان کے ساتھ کمال کا لوہا منوا رہے ہیں۔
ان کی شخصیت ملنے ملانے والوں کے درمیان جہاں بریشم کی طرح نرم تھی،وہیں درس میں فولاد کی مانند سخت ہوا کرتی تھی۔
دورانِ درس آپ ذرا سی چوک اور ادنیٰ غلطی پر بھی فوراً گرفت فرماتے،نیز اسباق میں ذرا سی کوتاہی اور غلطی برداشت نہ کرتے،بلکہ اسی وقت سختی سے متنبہ کرنے کے ساتھ ساتھ سرزنش بھی فرماتے۔ جس کا نتیجہ تھا کہ اس بھٹی سے تپ کر نکلنے والے جب کندن بنتے تو اپنی چمک دمک اور آب و تاب سے دیکھنے والی آنکھوں کو متحیر کیے دیتے۔
قاری صاحب کی پوری زندگی سادگی سے عبارت تھی۔آپ کے شاگردوں کی تعداد فی الوقت ہزار سے بھی متجاوز ہے،جو بلا شبہ ان کے لیے صدقۂ جاریہ ہے۔
آپ نے کبھی عاقائی عصبیت کے زیر اثر ہو کر کوئی کام نہیں کیا،بلکہ:
مرا پیغام محبت ہے،جہاں تک پہنچے
کی عملی تفسیر بنے ہر خاص و عام،اور ہر خطہ و علاقہ کے شائقینِ قرآن کےلیے اپنا دامنِ دل کشادہ رکھا اور اپنا فیضان سب کی خاطر عام کیے رہے۔
لیکن اس حقیقت کا انکار بڑی احسان نا شناسی اور حق فراموشی ہوگی کہ قاری صاحب کو بالعموم اطرافِ گریڈیہہ اور بالخصوص سرزمینِ کھوری مہوا سے ایک خاص لگاؤ اور الگ قسم کا تعلق تھا۔اس وقت اس علاقے کے اطراف و مضافات میں حفاظِ کرام کی معتد بہ تعداد وہ ہے جس نے قاری صاحب سے ہی اکتسابِ فیض کیا ہے۔
مولانا محمد الیاس مظاہری نے گفتگو ختم کرتے ہوئے کہا کہ اس حقیقت کا اعتراف مجھے بار بار رہا ہے،اور آج بھی ہے کہ قاری صاحب کی مجھ ناچیز پر ہمیشہ خصوصی توجہات رہیں،اور میرے لیے تین سال کی وہ مدت سرمایۂ حیات ہے،جس میں روزانہ بلاناغہ مجھے قاری صاحب کی مختلف النوع خدمات کا شرف حاصل رہا۔ اس وقت دل مغموم ہے،مگر مشیت کے خلاف چارہ جوئی بھلا کیوں کر ممکن ہو۔بس دعاء ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کی قرآنی خدمات کو قبول فرما کر انہیں اپنے شایان شان اجر عطا کرے۔
مجھ سے ان کے غایت تعلق کا ثبوت آخری بار آپریشن تھییٹر میں جانے سے قبل اہلِ خانہ کو بات کروانے کےلیے کہنا اور مجھے گفتگو کا شرف عطا کرنا بھی ہے۔
مکی مسجد کے امام و خطیب مولانا محمد اشفاق قاسمی نے کہا کہ قاری صاحب سے میری ملاقات معدودے چند بار ہی ہو سکی،لیکن اس قلیل دورانیے میں بھی میں قاری صاحب کی اخلاق مندی،خورد نوازی اور خندہ جبینی سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔اس تعزیتی نشست کا آغاز مولانا مجاھد ندوی کی تلاوت کلام اللہ سے ہوا،جب کہ ۔ مہمان شاعر قاری عبدالوکیل امام وخطیب بادیڈیہ نے قاری صاحب کے اوصاف حمیدہ پر مشتمل منظوم خراجِ عقیدت پیش کیا۔ اس موقع پر قاری صاحب کے خصوصی تلامذہ میں سے۔مولانا الیاس مظاہری حافظ عبدالرقیب بھنڈاری ڈیہ مولانا مہتاب عالم گریڈیہ حافظ نیاز عالم گلواتی حافظ افضل حسین حافظ عابد حسین مولانا عمران مظاہری حافظ منصور عالم مولانا مجاھد ندوی مولانا مجاھد قاسمی کے علاوہ علاقے کے معزز علماء کرام ودانشوارن قوم وملت بھی موجود تھے۔نشست کا اختتام جناب مولانا اشفاق صاحب کی رقت آمیز دعا و ایصالِ ثواب پر ہوا۔