امارتِ شرعیہ کو سولی پر چڑھانے کی تیاری


✏️ سید فضیل احمد ناصری

لیجیے، ملتِ اسلامیہ کا ایک اور سرمایہ خاک میں مل رہا ہے۔ اسلام کا ایک اور قلعہ مسمار ہونے کو ہے۔ بہار کی تاریخی شناخت بھی اب گردشِ دوراں میں پھنسی ہے۔ ہندوستان کا یہ شکوہ و افتخار بھی گرداب کی نذر ہے۔ یہ سب ہو رہا ہے۔ کھلی آنکھوں میں ہو رہا ہے۔ سب کے سامنے ہو رہا ہے۔ دن دھاڑے ہو رہا ہے، مگر کوئی قد آور اس کے تحفظ کے لیے، اس کی آزادی کے لیے، اس کے تقدس کی بازیابی کے لیے آگے نہیں آ رہا۔ اسے ڈر ہے کہ اس فتنۂ عمیاء میں اس کی آبرو سلامت نہ رہے گی۔ جبہ و دستار بے وقعت ہو جائیں گے۔ برسوں کی کمائی ہوئی شہرت داغ دار ہو جائے گی، لہذا ساحل پر بیٹھ کر ہی موجوں کی طغیانی دیکھو! لیکن یہ نہیں چلے گا۔ ملت کے تحفظ کے لیے انہیں آگے آنا پڑے گا۔ تارِ بستر کو خارِ بستر کرنا پڑے گا۔ کچھ قربانیاں دینی پڑیں گی، ورنہ اگلی نسلیں انہیں معاف نہیں کریں گی۔

تحفظِ امارت کے لیے آوازیں اٹھ رہی ہیں تو کن لوگوں کی! ان لوگوں کی، جن کا حلقہ بڑا نہیں ہے۔ جن کے شناسا زیادہ نہیں ہیں۔ جو اپنے علاقے سے باہر پہچانے نہیں جاتے، تاہم وہ ڈٹے ہیں۔ پوری پامردی سے کھڑے ہیں۔ امارت کے لیے قربانی دے رہے ہیں۔ اس کے لیے تحریک چلا رہے ہیں۔ مبارک ہیں وہ غازیانِ ملت۔ لائقِ تبریک ہیں وہ وفا شعارانِ حرم۔

مجھے افسوس اور بے حد افسوس ہے کہ کارکنانِ امارت اور اس کے ملازمین بھی صومِ سکوت رکھے ہوئے ہیں۔ دنیا کی رہ نمائی کرتے ہیں اور چراغ تلے کا اندھیرا انہیں نظر نہیں آتا۔ سب کچھ جانتے ہوئے، سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی ان کے لب، جنبش و صوت سے محروم ہیں۔ یہ مصلحت نہیں، بزدلی ہے۔ مردہ دلی اور بے نگاہی ہے۔ عام سرفروشوں کے ساتھ وہ بھی شریکِ احتجاج ہوتے تو تحفظِ امارت کی تحریک دو آتشہ ہو جاتی۔ مظاہرہ سونے پر سہاگہ ہوتا۔

یہ سوچنے کا مقام ہے کہ اپنا مکان ہو، یا اپنی دکان ہو، آدمی کو سارے تصرفات کا حق ضرور ہوتا ہے، مگر وہ آزاد ہونے کے باوجود بھی آزاد نہیں رہتا۔ اسے اپنے عزیزوں، رشتہ داروں، گاہکوں، خریداروں اور لین دین کرنے والوں کی نفسیات کا بھی خیال کرنا پڑتا ہے، ورنہ ظاہر ہے، لوگ اس سے بدک جائیں گے، کٹ جائیں گے، رابطہ توڑ لیں گے۔ پھر نتیجہ کیا ہوگا؟ کوئی عزت، نہ وقار۔ کوئی پکار، نہ کوئی پیار، کس نمی پرسد کہ بھیّا کیستی؟ یا بقول کسے ‌‌:

پھرتے ہیں میر خوار، کوئی پوچھتا نہیں

جب اپنے گھر اور دکان پر بھی اس کا پورا زور نہیں، اس کا کامل حقِ تصرف اسے بے لگام نہیں کرتا تو ملّی اداروں، تنظیموں اور تحریکوں پر اس کے آزادانہ تصرفات کیسے چل سکتے ہیں؟ یہ تو خالص عوام اور فرزندانِ اسلام کے ہوتے ہیں، انہیں چلانے کے لیے ملت اور عوامی رائے کا احترام ضروری کیوں نہیں!!

افسوس کہ اربابِ امارت کو یہ نکتہ سمجھ میں نہ آ سکا۔ آٹھویں امیر کا انتخاب ہنوز چیستاں بنا ہوا ہے۔ گزشتہ چند ماہ سے امارت میں جو کچھ چل رہا ہے، اس نے علما کی سنجیدگی پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ دینی پیشواؤں کی طہارتِ ذہنی اور نفاستِ فکری شک کے دائرے میں کر دی ہے۔ اربابِ حل و عقد ہزار کے قریب، اور وہ سوقیانہ پن کہ الاماں!! وہ کج روی کہ الحذر!! جس امیر کے انتخاب کا عمل بہت پہلے رفت و گزشت اور قصۂ پارینہ ہونا تھا، اپنے مرحوم امیر کے ساڑھے تین ماہ کے بعد بھی ہنوز روزِ اول۔ دستور کا احترام ہوتا تو تین ماہ کے وسط میں ہی یہ مرحلہ طے کر لیا جاتا۔ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ جمعیۃ علمائے ہند محمودی کے صدر فوت ہوئے اور چند دنوں میں ہی خانہ پری کر لی گئی۔ اسی کی ذیلی تنظیم امارتِ شرعیہ ہند کا امیر بھی طے کیا جانا تھا، قلیل عرصے میں اس کا اعلان بھی کر دیا گیا، مگر بہار کی امارت ایسی بدنصیب ٹھہری کہ یا تو اسے امیر ہی نہیں مل رہا ہے، یا پھر اتنے کہ کرسی پناہ مانگ رہی ہے۔

بہت کہا سنی، بڑی نوک جھونک اور جوئے خوں سر سے گزر جانے کے بعد خدا خدا کر کے تاریخ کا اعلان اب کر دیا گیا۔ اعلامیے کے مطابق انتخابِ امیر کا مرحلہ 8 اگست کو ہوگا، مگر اس سے کسی کو مسرت تو کیا ہوتی، الٹے دھچکا ہی لگا، کیوں کہ جو طریقہ اپنایا گیا، اس سے پورا بہار شرمسار ہے۔ اس کی شریعت اجازت دیتی ہے، نہ دستور راستہ دیتا ہے۔ یہ خالص سیاسی الیکشن جیسا ہے، بلکہ اس سے بھی بدتر۔ بے تکا پن تو دیکھیے! اربابِ حل و عقد سے کہا گیا ہے کہ اپنے پسندیدہ امیدوار کا نام تحریراً پیش کریں! جس امیدوار کو 151 اربابِ حل و عقد کی بادستخط حمایت حاصل ہوگی، اسی کے نام پر غور ہوگا۔ انہیں یہ بھی ہدایت ہے کہ 29 اور 30 جولائی تک امیدوار کا نام پیش کر دیں! الیکشن کے لیے 14 مراکز بھی قائم کیے گئے ہیں۔

کوئی ان سے کہے تو کیسے کہے کہ یہ طرزِ انتخاب غلط، سراسر غلط اور اسلامی تعلیمات سے براہِ راست متصادم ہے۔ اسے عقل قبول کرتی ہے، نہ نقل اسے جائز کہتا ہے۔ ایسا تو کسی کافرانہ طرزِ انتخاب میں بھی نہیں ہوتا۔ ہمارا مذہب کہتا ہے کہ جو امارت کا طلب گار ہو، اسے امیر نہ بناؤ! اور اعلان یہ کہہ رہا ہے کہ امارت کے امیدوار بہ اندازِ دیگر اپنا نام پیش کریں! کم و بیش اربابِ سیاست کی طرح، کہ وہ اپنا پرچۂ نام زدگی داخل کرتے ہیں اور کوشاں ہوتے ہیں کہ انہیں ان کا منصب بہر حال مل ہی جائے۔ یہ وہ طرزِ انتخاب ہے جس میں کوئی شریف، باکردار، صاحب نظر، رجلِ رشید اور عفیف و نظیف عالم تو کیا، معمولی صلاحیت کا مولوی بھی حصہ نہیں لے سکتا۔ یہ اہلِ علم و فضل کی عزتِ نفس کے خلاف ہے۔ سوال یہ ہے کہ 151 مؤیدین کے ساتھ کسی کی امارت پر غور کرنے کی یہ شق کہاں سے در آمد کی گئی؟ ایسا تو کسی کافرانہ طرزِ انتخاب میں بھی نہیں ہوتا۔ مگر بات وہی ہے کہ انتخاب کی یہ چال در اصل محض خانہ پری، ابلہ فریبی، دکھاوا اور چھلاوا ہے۔ امارت میں بیٹھے کئی کلیدی لوگ بہر صورت چاہتے ہیں کہ اگلا امیر بھی اسی مونگیر سے آئے، جہاں سے ساتویں امیر منتخب ہو کر آئے تھے۔ اب تو راز نہیں رہا کہ اس کے لیے کیا کیا ستم ایجاد نہ کیے گئے! پہلے تو مختلف تقاریب میں اشارے کنائے ہوئے۔ اخبار میں مضامین لکھوائے گئے۔ ارکانِ شوریٰ کی برقی نشست بلائی تو مخصوص لوگ ہی اپنی رائے رکھ سکے اور ناپسندیدہ ارکان کے وقت لائن کاٹ دی گئی۔ مجلس کا انعقاد بھی امارت کے زیرِ اہتمام نہ ہوا۔ 11/ رکنی کمیٹی خلافِ دستور قاتم کی گئی، جس میں اغلباً وہی ہیں جنہیں مونگیری امیر چاہیے۔ 850 میں سے 250 وفات یافتہ اربابِ حل و عقد کی بھرپائی سخت اعتراضات کے باوجود قریبی بندوں سے کی گئی۔ ‘مقدس گائے’ کے ترجمان تحصیلِ دستخط کے لیے اربابِ حل و عقد تک خفیہ قدم بھاگے، رغبۃً و رھبۃً انہوں نے بھی دستخط کر دیے۔ مہرے جب بساط پر قاعدے سے بٹھا دیے گئے۔ جب تمام اندیشے گل کر دیے گئے۔ جب سارے نشیب و فراز ختم ہو گئے۔ جب تمام رکاوٹیں دور ہو گئیں۔ جب زمین اچھی طرح ہموار ہو گئی تو انتخابی تاریخ کا اعلان کر دیا گیا۔ میرا تو یقینِ محکم ہے کہ فیصلے کے دن ‘فیصلِ مجلس’ یہی کہیں گے کہ جس امیدوار کے حمایتی سب سے زیادہ اور بڑھ کر ہیں، انہیں ہی آٹھواں امیر نامزد کیا جا رہا ہے اور خوش بختی سے یہ قرعۂ فال حضرت اقدس مونگیری کے نام نکلا ہے۔ درود شریف پڑھیے: اللہم صل علیٰ سیدنا۔۔۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ:

یہ سارے مناظر، یہ ڈرامے، یہ تماشے
اک شخص کو کرسی پہ بٹھانے کے لیے ہیں

جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ انتخاب کا یہ رنگ اور ڈھب بھاجپائی دور میں لوک سبھا اور اسمبلی سے کسی درجے کم نہیں ہے۔ ظاہر کچھ، باطن کچھ۔ آپ ووٹ کسی کو دیں، پڑے گا بی جے پی کو۔ آپ کا قیاس کچھ بھی کہے، استدلال کی کتنی ہی قوت اور شواہد کی کتنی ہی بنیادوں پر آپ کا دماغ ایک رائے قائم کرے، نتیجہ سب کو غلط کر دے گا، کیوں کہ الیکشن تو دکھاوا تھا۔ کہانی تو پہلے ہی لکھی جا چکی تھی۔
۔
اب کوئی کرشمہ ہی چونکائے تو چونکائے، ورنہ تو ہم پہلے سے ہی مبارک بادی کے کارڈ چھپوا کر رکھ چکے ہیں۔ موہوم سی امید تو بہر حال قائم ہے اور اسی بنیاد پر یہ عرض کہ اربابِ حل و عقد اور امارت کے ذمے داران نے انصاف اور آئین کی بالادستی کا پاس و لحاظ رکھا تو حضرت اقدس کی امیدواری دستور کی پہلی شق سے ہی خارج ہو جائے گی۔ ان کے حمایتی خواہ 151 ہوں، یا سارے کے سارے۔ لیکن ایسا نہیں ہوگا، منتخب حضرت اقدس ہی ہوں گے، کیوں کہ امارت اب عوامی نہیں رہی۔ سات رکنی ٹرسٹ کے نام رجسٹرڈ ہو چکی ہے، ٹرسٹ کے سارے نام ایک ہی گھرانے کے ہیں۔

کوئی بڑا مدرسہ ہو یا مؤثر تنظیم۔ ان کے لیے دو عناصر ہمیشہ صرصر بنے۔ ایک خاندانی موروثیت اور دوسری نوجوانوں کی قیادت۔ ان کی نحوستوں نے کتنے ہی سایہ دار درختوں کو خزاں آشنا کر دیا۔ بڑے اداروں میں بڑے منصب کے لیے کم عمروں، ناتجربہ کاروں اور ناپختہ لوگوں کا انتخاب نہیں ہونا چاہیے، چہ جائے کہ امیرِ شریعت کے لیے۔ نوجوانوں کا انتخاب عموماً تباہی لاتا ہے۔ ان کی سربراہی مضرت رساں ہوتی ہے۔ آپ خود تحقیق کر لیجیے، جہاں جہاں جوانوں کو بڑے مناصب دیے گئے، ساری اقدار و روایات کا بیڑہ غرق ہو گیا۔ تنگ نظری، خشک مزاجی، اور ناقدر شناسی سے ادارے کی ہیئتِ عرفی طاقِ نسیاں کی یادگار بن گئی۔ ہادئ اکرمﷺ نے صحابہؓ سے فرمایا:

تعوذوا من امارۃ الصبیان۔ کم عمروں اور ناپختہ لوگوں کی امارت سے اللہ کی پناہ مانگو!

اور خود بھی ایسے لوگوں کی امارت سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ حضرت ابوہریرہؓ تو حد سے زیادہ پریشان رہتے اور نوعمروں کی ماتحتی سے خدا کی پناہ مانگا کرتے۔

علمی دنیا میں بہار کو اگر قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، تو اس کی بنیادی وجہ سو سال سے یہی امارت تھی۔ افسوس کہ اب اسے بھی سولی دی جا رہی ہے۔ پٹنہ کی ساری مسجدیں اس ممکنہ فیصلے کے خلاف ہیں۔ کئی تنظیمیں اس کے تحفظ کے لیے میدان میں آ چکی ہیں۔ خود اربابِ امارت سے ملاقاتیں کر چکی ہیں۔ اپنے خدشات اور اندیشوں کا اظہار کر چکی ہیں۔ ذمے داروں کی بے اصولیوں پر متنبہ کر چکی ہیں۔ جھارکھنڈ امارت سے الگ ہونے کی وعید سنا چکا ہے۔ نام نہاد 11 رکنی کمیٹی سے وہاں کے نامور عالمِ دین مفتی نذر توحید صاحب استعفا دے چکے ہیں، لیکن ساری صدائیں ایک طرف۔ ‘بڑوں’ کی رائیں ایک طرف:

کیا اس لیے تقدیر نے چنوائے تھے تنکے
بن جائے نشیمن تو کوئی آگ لگا دے

ذمے داروں سے درخواست ہے کہ انتخابِ امیر کی یہ نشست پٹنہ ہی میں منعقد کریں۔ دستور کے مطابق کریں۔ ضمیر کی آواز پر کریں۔ شفافیت کے ساتھ کریں۔ ایک درخواست یہ بھی ہے کہ امیر صرف پانچ سال کے لیے منتخب کیا جائے۔ ہر صوبے سے ایک ایک نائب امیر بھی منتخب ہو۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو امارت کا تقدس رسوائی سے بچ سکے گا۔ شکست و ریخت کے بادل فوری چھٹ جائیں گے۔ ادارہ اپنی روایتی شان سے آگے بھی چلتا رہے گا۔

جہاز کو رینگانے، دوڑانے، اڑانے اور عقاب کی طرح فضا کو مسخر کرنے کے لیے آٹو رکشے کا ڈرائیور منتخب نہیں کیا جاتا، بلکہ اس کے لیے مخصوص طبیعت، چابک دماغ، بَرّاق نظر اور کامل شجاعت و بسالت کی ضرورت ہوتی ہے۔ خدا کرے خونِ جگر سے لکھی یہ تحریر آپ کے ذہنوں کو اپیل کرنے میں کامیاب رہے:

ہمارا کام سمجھانا ہے یارو
اب آگے چاہو تم مانو نہ مانو