مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار،اڈیشہ و جھارکھنڈ
غیر منقسم بہارکی امارت شرعیہ کے پہلے امیر شریعت، خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف پٹنہ کے سجادہ نشیں، لمعات بدریہ کے مصنف، ہزاروں تشنگان تصوف کے پیر و مرشد، تحریک خلافت کے عظیم قائد، بدرالکاملین حضرت مولانا سید شاہ بدرالدین قادری علیہ الرحمہ کا پچھتر سال کی عمر میں ١٦/صفر ١٣٤٣ھ مطابق ١٩٢٤ء کو سفر آخرت ہوا، باغ مجیبی نزد خانقاہ مجیبیہ میں تدفین عمل میں آئی، جو قبرستان خانقاہ مجیبیہ کے نام سے مشہور و متعارف ہے، پس ماندگان میں چار لڑکے مولانا سید شاہ محی الدین قادری (امیر شریعت ثانی) مولانا سید شاہ قمرالدین (امیر شریعت ثالث) مولانا سید شاہ نظام الدین، مولانا حافظ شہاب الدین رحھم اللہ اور ایک اہلیہ کوچھوڑا، جنازہ کی نماز حضرت کے بڑے صاحبزادہ مولانا سید شاہ محی الدین قادری رح نے پڑھائی۔
حضرت مولانا سید شاہ بدرالدین قادری بن حضرت مولانا سید شاہ شرف الدین قادری رح کی ولادت ٢٧/ جمادی الآخر ١٢٦٧ھ مطابق ١٨٥٢ء خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف پٹنہ میں ہوئی، ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد سے حاصل کرنے کے بعد علوم متداولہ اور درسی کتابوں کی تدریس کی تکمیل اپنے پیر و مرشد اور خانقاہ مجیبیہ کے اس وقت کے سجادہ نشیں حضرت مولانا سید شاہ علی حبیب نصر قادری قدس سرہ سے کی، پھر ١٣٠٤ھ مطابق ١٨٨٧ء میں آپ نے حرمین شریفین کا سفر کیا، اور حضرت مولانا آل احمد محدث مہاجر مدنی، حضرت شیخ عبد اللہ صالح سناری، سید محمد بن سید احمد رضوان، شیخ عبد الرحمن بن ابو خضیر مدنی، شیخ عبد الجلیل بن عبد السلام برادہ، شیخ محمد فالح ظاہری، شیخ عبد الحئی کتانی محدثین و شیوخ حرمین سے احادیث کی کتابوں کا درس لیا اور استفادہ کیا، اسی سفر میں حضرت امداد اللہ مہاجر مکی رح نے سلسلہ چشتیہ صابریہ اور حزب البحر کی اجازت عطا فرمائی۔
اس سفر سے لوٹنے کے بعد ١٣٠٩ھ میں آپ اپنے شیخ و مرشد و خسرمحترم حضرت مولانا سید شاہ علی حبیب نصر قادری کے جانشیں کی حیثیت سےخانقاہ مجیبیہ کے سجادہ نشیں ہوئے اور پوری زندگی لوگوں کو راہ راست پر لانے میں لگا دیا۔
آپ کی علمی وجاہت، ملک و قوم کے لیے آپ کی فکر مندی اور حلقہ اثر کی وسعت کو دیکھتے ہوئے ١٣٣٣ھ مطابق ١٩١٥ء کو انگریزوں کی جانب سے شمس العلماء کا خطاب، تمغہ اور خلعت پیش کیا گیا، وقتی مصلحتوں کے پیش نظر آپ نے اس مسٔلہ پر خاموشی اختیار کی؛ لیکن جب انگریزوں کی جانب سے اس کی نو آبادیات پر مظالم ہونے لگے تو آپ نے خطاب ، تمغہ وغیرہ کو یکم اگست ١٩١٩ء مطابق ١٣٣٨ھ کو واپس کردیا اور کمشنر کو لکھا کہ اس کی واپسی سے آپ ان حالات پر بے انتہا رنج و غم کا اندازہ کرلیں، اس کے بعد آپ نےخلافت تحریک کو آگے بڑھانے میں نمایاں رول ادا کیا، خانقاہ کی سجادہ نشینی کے تقاضوں کی وجہ سے آپ کا سفر اس کام کے لیے ممکن نہیں تھا، اس لیے آپ نے اپنے بڑے صاحبزادہ مولانا سید شاہ محی الدین قادری قدس سرہ کو خلافت کے جلسوں کی صدارت تقریر اور عملی جد و جہد کے لیے مامور فرمایا اور تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے مؤثر راہنمائی فرماتے رہے۔
اسی زمانہ میں حضرت مولانا ابو المحاسن محمد سجاد رح نے امارت شرعیہ کا خاکہ تیار کیا، اکابر علماء، خانقاہ کے سجادہ نشینوں، دانشوروں اور مولانا ابوالکلام آزاد سے نجی ملاقات کرکے قیام امارت شرعیہ کے لیے راہ ہموار کی، معاملہ مولانا ابوالکلام آزاد کی رانچی نظر بندی کی وجہ سے ٹلتا رہا، ١٩٢٠ء میں یہ نظر بندی ختم ہوئی، تو مولانا نے ١٩/ شوال ١٣٣٩ھ مطابق ٢٦/جون ١٩٢١ء کو محلہ پتھر کی مسجد پٹنہ میں اس سلسلے کی مٹنگ بلائ، مولانا ابوالکلام آزاد کی صدارت میں منعقد اس اجلاس میں مختلف مکتبہ فکر کے کم و بیش پانچ سو علماء و دانشور جمع ہوئے، امارت شرعیہ کے قیام کے فیصلے کے بعد مسٔلہ امیر شریعت کے انتخاب کا تھا، قطب عالم حضرت مولانا محمد علی مونگیری رح نے مولانا سید شاہ بدرالدین قادری رح کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ اس منصب جلیلہ کو قبول کرلیں؛ چنانچہ حضرت مونگیری کے اصرار پر حضرت مولانا سید شاہ بدرالدین قادری رح نے اس ذمہ داری کو قبول کیا اور پہلے امیر شریعت کی حیثیت سے کام شروع کیا، حضرت مولانا مونگیری نے لکھا ہے کہ”یہ فقیر اپنے خاص محبین سے اتنا اور کہتا ہے کہ اس وقت جوامیر شریعت ہیں انہوں نے میرے ہی کہنے سے اس امارت کو قبول کیا ہے اب میں تمام محبین سے باصرارو منت کہتا ہوں کہ اس میں کسی قسم کا اختلاف نہ کریں”
حضرت مونگیری کی توجہ خاص، حضرت امیر شریعت اول کی ہدایات اور نائب امیر شریعت حضرت مولانا ابو المحاحسن محمدسجاد رح کی عملی جد و جہد کے نتیجہ میں امارت شرعیہ نے عوام و خواص میں کم وقت میں مضبوط پکڑ بنالی
، آپ بڑے متبحر عالم تھے، حدیث کی سند شیوخ حرمین سے حاصل کی تھی، آپ نے اپنے وقت میں خانقاہ میں درس قرآن، درس حدیث اور درس تصوف کا سلسلہ شروع کیا اور جاری رکھا، جس سے علمی میدان میں بھی خانقاہ کا فیض عام لوگوں تک پہونچا، خانقاہ مجیبیہ کے دارالعلوم سے آج بھی اس کا فیضان جاری و ساری ہے۔
امیر شریعت اول حضرت مولانا سید شاہ بدرالدین قادری رح کو اللہ رب العزت نے تصنیف و تالیف کا بھی اچھا ملکہ عطا فرمایا تھا، لمعات بدریہ کے نام سے آپ کے رسائل و مکاتیب کا ضخیم مجموعہ موجود ہے، اس مجموعہ میں مکاتیب کے علاوہ مختلف موضوعات پر تحقیقی مضامین ہیں، چار جلدیں شائع ہوچکی ہیں، بقیہ ابھی مخطوطہ کی شکل میں محفوظ ہے، اس مجموعہ کے علاوہ بھی بعض رسائل کا پتہ چلتا ہے، جن میں رویت ہلال کے موضوع پر ایک رسالہ مطبوعہ ہے، جو انتہائی مدلل ہے۔
امیر شریعت کی حیثیت سے کام کرنے کے لیے ساتوں امیر شریعت میں آپ کوسب سے کم وقت ملا۔لیکن اس کم وقت میں ہی آپ نے بانی امارت شرعیہ مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد ،اپنے صاحبزادہ مولا نا محی الدین قادری رح اور دیگر رفقاء امارت شرعیہ کی مدد سے پورے بہار میں نظام امارت کو پھیلایا۔دارالقضااور مکاتب کے نظام پر توجہ دی اور فکری طور پر امارت کے پیغام کو گاءوں گاءوں پہنچایاگیا جس سے اگلے امراء کے دور میں کام کو آگے بڑھانے میں مدد ملی رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ۔