آہ ! میرے استاذ ،میرے شیخ

خاموش ہوگیا ہے چمن بولتا ہوا

مفتی محمد قمر عالم قاسمی

مفتی محمد قمر عالم قاسمی
خادم التدریس والافتاء
مدرسہ حسینیہ کڈرو رانچی
عاشقان جمعیت علماء ہند، طالبان دارالعلوم دیوبند،محبان تحفظ ختم نبوت،شیدایان مدارس اسلامیہ عربیہ کے قلب وجگر پر حکمرانی کرنے والی تاریخ ساز شخصیت ،امیرالہند ،صدر جمعیت علماء ہند،معاون مہتمم ،استاذ حدیث، شعبہ تحفظ ختم نبوت دارالعلوم دیوبند کے ناظم اعلیٰ، مدرسہ حسینیہ کڈرو رانچی و دیگر مدارس اسلامیہ کے سرپرست عظیم المرتبت،ہم سب کے محسن ومربی حضرت مولانا حافظ وقاری سید محمد عثمان صاحب منصور پوری نوراللہ مرقدہ کی وفات ایک ایسے وقت میں جبکہ ملت کو ان جیسے ناصر مددگار کی ضرورت تھی۔ ملک وملت کی انتہائی پر آشوب حالات میں دار فانی سے داربقاء کی طرف رخصت ہونا، اپنے پیچھے عزم ،ہمت،بلند حوصلگی اور عزیمت کی ایسی داستان چھوڑ جانا جو طویل عرصے تک ان کی کمی کا احساس دلاتی رہیں گی اور درد مند دل آنسو بہاتے رہیں گے۔بڑی شخصیات مختلف طرح،مختلف انداز اور متنوع ذوق مزاج کی حامل ہوتی ہیں۔بعض اپنے افکارو نظریات سے ایک دنیا کو متاثر کرتی ہے۔بعض اپنے ورع وتقوی اور خلوص وللہیت سے، بعض علمی و دماغی کام کےساتھ ہی انتظامی و عملی صلاحیتوں سے بھی مالا مال ہوتی ہیں۔ اگر چہ ایسا بہت کم ہوتا ہے لیکن یہ مستبعدنہیں۔
داغ فراغ صحبت شب جلی ہوئی
ایک شمع رہ گئی تھی سو وہ بھی خاموش ہے
علماء کی یہ خوبی رہی ہے کہ وہ کٹھن سے کٹھن مراحل و مواقع اور حالات میں بھی صبر وتحمل کا دامن چھوٹنے نہیں دیتے۔معاشرہ کے اڑیل مزاج لوگ ہو ،یا اقتدار واکثریت کے نشے میں نام نہاد ظالم حکمراں،وہ کلمہ حق اور سچی و سیدھی بات کرنے سے نہیں چوکتے۔اسی لئے نبی کریم ﷺ نے ان باتوں کو افضل الجہاد کلمۃ الحق امام السلطان الجائر سے تعبیر کیا ہے۔حضرت الاستاذ سید قاری محمد عثمان صاحب ؒ ان اوصاف کے حامل اور اپنے اندر ایک دردمند دل رکھتے تھے۔ملک وملت کا کوئی اہم مسئلہ ہو یا اپنے شاگردوں وجمعیت علماء کے اراکین وممبران کی تربیت کا مسئلہ ہو وہ بے باکی جرات مندانہ انداز میں لب کشاء ہوتے اور مسکراتے ہوئے صحیح رہنمائی فرماتے۔ حساب کتاب کے سخت پابند تھے،وہ پائی پائی کا حساب رکھتے تھے۔دین وشریعت و سنت اور اصول وضوابط کی خلاف ورزی کی شکل میں سخت ناراض ہوتے اور غصہ سے چہرہ سرخ ہوجایا کرتاتھا۔مگر اصلاح کی صورت میں بہت جلد نرم بھی ہوجایا کرتے تھے۔کسی کے خلاف دل میں بغض کینہ نہیں رکھتے تھے۔
حضرت الاستاذؒ سے میری شناسائی یوں تو استاذی و شاگری کے مرحلے سے بہت ہی قبل ہوچکی تھی۔ اسکی وجہ یہ تھی کہ حضرت کے چھوٹے صاحبزادے مولانا ومفتی عفان منصور پوری مجھ سے ایک سال بعد فارغ ہوئے۔لیکن شعبہ مناظرہ دارالعلوم دیوبند میں ہم دونوں ایک ساتھ تھے۔اور بعد نماز جمعہ عربی پنجم اولیٰ(احاطہ مولسری) میں ہفتہ واری منعقد ہونے والے شعبہ مناظرہ کے مشقی پروگرام میں کبھی کبھاربحثیت متکلم آمنے سامنے ہوجایا کرتے تھے۔شعبہ افتاء دارالعلوم دیوبند سے فراغت کا وقت جب قریب ہوا تو میدان خدمت اور معاش کی تھوڑی فکر لاحق ہوئی۔(چونکہ میری شادی شعبہ افتاء سے فراغت کے قبل ہوچکی تھی)اچانک دفتر اہتمام دارالعلوم دیوبند کی طرف سے ایک اعلان دارالعلوم کے صدر گیٹ پر آویزاں ہواکہ ایک شاہی مسجد کے لیے امام وخطیب کی ضرورت ہے۔ خواہش مند طلبہ اپنی اپنی درخواست دفتر اہتمام میں جمع کردیں۔اس اعلان پر حضرت والاکا دستخط بحیثیت نائب مہتمم ثبت تھا۔تقریبا28 درخواستیں دفتر اہتمام میں جمع ہوئیں من جملہ ان میں میری بھی ایک درخواست تھی۔حسب اعلان دیگر طلبہ کے ساتھ میں بھی انٹرویو کےلئےحضرت الاستا ذ کی خدمت میں چھتہ مسجد کے شمالی جانب حجرہ(اسی حجرہ میں حضرت نووارد مہمانوں اور طلباء کرام س ملا کرتے تھے اوریہیں ضیافت بھی کرتے) میں حاضر ہوا۔جلالین شریف کا امتحان ہر ایک شرکاء سے لیا اور پھر انہوں نے ہمیں کچھ بھی نہیں بتایا۔سالانہ امتحان کے بعد رمضان المبارک کی تعطیل میں میں گھر چلاآیا۔ درمیان رمضان المبارک دفتر اہتمام سے میرے گھر کے پتہ پر ایک خط آیا جو حضرت الاستاذ محترم کے قلم سے ہی تحریر شدہ تھا۔وہ خط آج بھی میرے پاس محفوظ ہے۔حضرت نے لکھا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ تمہارا انتخاب شاہی مسجد کی امام وخطیب کی حیثیت سے کر دیا تھا۔بہتر ہوتاکہ مجھ سے ملاقات کر کے گھر جاتے۔مسجد کے ذمہ داران سے مل کر معاملات طے کر لیں۔اور مجھے بھی تفصیلات سے مطلع کردیں والسلام،محمد عثمان22شعبان1420ہجری۔حضرت الاستاذ ؒ کے حکم کے مطابق لندن سے آنے والے جوابی خط میں شاہ آفتاب عالم مرحوم سے پہلے فون پر رابطہ کیا۔(میرے گھر میں میری پیدائش سے پہلے ہی لینڈ لائن ٹیلی فون لگا ہوا تھا)کیونکہ میرے والدمحترم کا شمار علاقہ کے معروف و مشہور سیاست داں،تاجر اور ایک بڑے ٹھیکہ داروں میں ہوتا تھا اور وہ بمبیا قاسم کے نام سے جانے اور پہچانے جاتے تھے ۔شاہ آفتاب مرحوم کے یہاں پہونچنے پر انہوں نے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کیااور تپاک سے ملے، خوب ضیافت کی۔فیملی کوارٹر کے علاوہ تین ہزار روپے تنخواہ دسمبرسن1999میں طے ہوئی۔میں نے وقتی طور پر اسے قبول کر لیا، مگر میرا رجحان امامت کی طرف نہیں تھا۔ بلکہ میری دلی خواہش تھی کہ میں کسی دینی و اسلامی تعلیم گاہ میں رہ کر درس وتدریس کی خدمت انجام دوں۔لہذا گھومنے کی غرض سے ہم دونوں بھائی(مفتی محمد نوشاد عالم قاسمی اور راقم الحروف) رانچی آئے۔مدرسہ حسینیہ پہونچنے کے بعد حضرت مولانا محمد صاحب(اس وقت نائب مہتمم مدرسہ حسینیہ تھے) سے ملاقات ہوئی۔خبر وخیریت کے بعد انہوں نے ناشتہ کا انتظام کیا مگر ہم دونوں بھائی پہلے ہی فارغ ہوچکے تھے۔ہم لو گوں نے معذرت کی تو وہ خفا ہوگئے اور کہا کہ یہ مدرسہ مجاہد آزادی حضرت شیخ الاسلام حسین احمد مدنی ؒ کے نام سے موسوم ہے۔ یہاں آنے والا کوئی بھوکا نہیں رہتا ہے اور نہ ہی بھوکہ سوتا ہے۔میرے بھائی مفتی نوشاد عالم قاسمی جو دارالعلوم دیوبند میں حضرت مولانا محمد صاحب کے ہم عصر بھی ہیں ،کہا کہ اس (قمر عالم)کی خواہش کسی مدرسہ میں رہ کر درس وتدریس اور فقہ وفتاوی کی خدمت انجام دینے کی ہے۔اگر آپکے مدرسہ میں گنجائش ہوتو رکھ لیجئے۔حضرت مولانا محمدصاحب نے جواب دیا کہ والد محترم (حضرت مولانا ازہرؒ)ممبئی میں ہیں اور مدرسے کی طرف سے استاذ ک لئے خط حضرت مولانا شیخ عبدالحق صاحب محدث دارالعلوم دیوبند اور حضرت مولانا سید قاری عثمان صاحب نائب مہمتم دارالعلوم دیوبند کے نام جا چکا ہے۔اور وہاں سے ابھی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ اسلئے ابھی آپ گھر چلے جائیں ہم آپ کو والد محترم حضرت مہتمم صاحب کے ممبئی سے آنے کے بعدمشورہ کرکے اطلاع کریں گے۔چند دنوں کے بعد حضرت مولانا محمد صاحب نائب مہتمم مدرسہ حسینیہ کڈرو رانچی کا فون میرے گھر آیا کہ آپ مدرسہ آجائیں،آپکی تقرری کی بات چیت والد محترم حضرت مہتمم صاحب سے ہوچکی ہے۔حضرت نائب مہتمم صاحب کے حکم کے مطابق میں مدرسہ حسینیہ رانچی آیا۔اور آکر بس یہیں کا ہوکر رہ گیا۔گھر مکان ،درس تدریس اور سماجی خدمت کا میدان میرے لیے جھارکھنڈ ہی رہ گیا۔یہ ساری خدمات کی توفیق اللہ کے فضل اور حضرت الاستاذحضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب نوراللہ مرقدہ کی دعائوں اور توجہات کے نتیجے میں میسر ہوئیں۔فللہ الحمد،اللہ تعالیٰ حضرت الاستاذ کی خدمات کو بھی قبول فرمائے۔ انکی مغفرت فرمائے،جنت الفردوس میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور انکے صاحبزادگان حضرت مولانا مفتی سلمان صاحب قاسمی اور حضرت مولانا مفتی عفان صاحب قاسمی ودیگر اہل خانہ و جملہ متوسلین و محبین جمعیت علماء ہند کو صبر جمیل و استقامت عطا فرمائے،اور جمعیت علماء ہند کو حضرت کا نعم البدل عطا فرمائے۔ہم شکر گزار ہیں ۔حضرت مہتمم صاحب نوراللہ مرقدہ اور حضرت مولانا محمد صاحب مہتمم مدرسہ حسینیہ کڈرو رانچی کا کہ انہوں نے مجھے مدرسہ حسینیہ میں خدمت کرنے کا موقع فراہم کیا۔اللہ حضرت مہتمم صاحب کی بھی مغفرت فرمائے، حضرت مولانا محمد صاحب مہتمم مدرسہ حسينيه رانچی کو اللہ اپنے شایان شان بہتر سے بہتر بدلہ عطا فرمائے صحت وتندرستی سے نوازے ۔آمین۔