اس وقت ہمارا ملک ہندوستان اور ہندوستانی مسلمانوں پر ایک بہت ہی نازک مرحلہ آگیا ہے اور حکومتی سطح پر مسلمانوں کے لئے سیاسی, سماجی, تعلیمی اور مذہبی زمین تنگ کرنے کی کی ہر اعتبار سے کوشش کی جارہی ہے, جس کا اہل علم حضرات بخوبی ہے, ان حالات میں بھی مقامی سطح سے لے کر ضلعی, ریاستی, اور ملکی سطح تک اگر علماء نے اپنے آپ کو اور اپنے اپنے زیر اثر اور حلقہ کے عوام کو نہیں سنبھالا اور اخلاقی,روحانی,علمی وذہنی, ان چاروں راستوں اور طریقوں سے اپنی بلندی, اپنا امتیاز اور اپنی افادیت و ضرورت خود علماء اور عوام کے اندر ثابت نہیں کی تو موجودہ حالات کے پس منظر میں اندیشہ ہے کہ پورے دین اور پوری ملت اسلامیہ پر ہی زوال نہ آجائے اور ہم خوش فہمیوں کی وادیوں میں سیر کرتے رہ جائیں اور “ان شاء اللہ سب ٹھیک ہو جائے گا “کے گمان میں حرکت و عمل کے خدائی حکم سے پوری طرح آنکھیں بند کرلیں, بعض مرتبہ بہت ہی محدود اور بظاہر معمولی اخلاقی کمزوریاں اور آپسی اختلافات و بدگمانیاں اتنے خطرناک نتائج کا سبب بن جاتے ہیں جن کا تصور بھی ہم نہیں کرسکتے ہیں, بعض اوقات وہ آپسی اختلافات و بدگمانیاں پوری ملت اسلامیہ کو زوال یا سخت آزمائش اور ایک عجیب کشمکش میں مبتلا کر دیتے ہیں, بعض مرتبہ عوام وعلماء یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں کہ کئی علماء کے درمیان بظاہر بڑا خوشگوار ماحول نظر آتا ہے, ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں, سلام وکلام بھی ہوتا ہے لیکن دل میں ایک دوسرے کے لئے میں نفرت اور بدگمانی کا زہر بھی بھرا ہوا ہے ,آپ جب اس طرح کے حالات پر نظر دوڑائین گے اور کھود کرید کرتے کرتے اس کے اسباب و نتائج کی زنجیر کے آخری سرے پر پہنچیں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ فلاں قسم کی ایک نفسانیت, ایک بدگمانی, اپنی بالادستی اور خود کو دوسروں سے صاف ستھرا اور بڑا بننے کا جذبہ,دوسروں کی ترقی اور صلاحیت اور عوامی شہرت و مقبولیت سے جلن وحسد, اجتماعی اور ملی مفاد پر انفرادی مصلحت اور ذاتی مفاد کی ترجیح اس کی اصل ذمدار نظر آئے گی, آج اسی وجہ سے پوری ملت زوال سے دوچار ہے اور ان میں سے ذیادہ تر بہت سی چیزوں کا وجود اور پتہ دین وعلم کے اصل نمائندوں (علماء) کی سیرت و کردار میں ملتا ہے,