اپنے لیے جیئےتو کیا جیئے، اے دل تو جی زمانے کے لیے…

سماج سیوا سے ملتا ہے دل کو سکون
:سید خورشید اختر

سماجک کاموں میں سیاست کو شامل نہ کریں

رانچی23جنوری() سماجی خدمت سب سے بڑا انسانی مذہب ہے۔ اس سے جو سکون ملتا ہے، وہ بے پناہ دولت ہونے سے بھی نہیں مل سکتا ہے۔ ایسا ماننا ہے راجدھانی رانچی کے کانکے روڈ پر واقع خان محلہ کے رہنےو الےنامور سماجی کارکن سید خورشید اختر کا۔ وہ سماجی خدمت کےتئیں خود کو وقف سمجھتے ہیں۔ کئی سماجی تنظیموں سے جڑے ہوئے ہیں۔ انکی ابتدائی تعلیم و تربیت نا مكوم واقع بشپ ویسٹ کاٹ بوائز اسکول سے ہوئی۔ وہیں سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ مارواڑی کالج سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ ان میں سماجی خدمت کا جذبہ بچپن سے ہی رہا۔ جوانی میں یہ شوق اور مزید پروان چڑھنے لگا۔ ان کے والدمرحوم سید اصغر حسین بھی شہر کے جانے مانے سماجی کارکن تھے۔سید خورشید اختر کو سماجی خدمت کی ترغیب ان کے والد سے ملی۔ وہ بتاتے ہیں کہ بچپن میں ایک گانا اکثر وہ گنگنایا کرتے تھے۔گانا کے دھن تھے، “اپنے لئے،جیئے تو کیا جیئے اے دل تو جی زمانے کے لئے …” آگے چل کر انہوں نے بادل فلم کے اس گانے کی چند لائن کواپنے زندگی میں اتار لیا۔ اور سماجی خدمات کو سب سے اوپر سمجھتے ہوئے یہ اپنے زندگی کے بنیادی مقصد بنا لیا۔ پیشے سے تاجر سیدخورشید اختر اپنے خاندانی اور کاروباری سرگرمیوں کا بخوبی نبھاتےہوئے سماجی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے۔ سماجی خدمت کے میدان میں ان کی سرگرمی دیکھتے ہی بنتی ہے۔ کسی بھی مذہب، کمیونٹی کاتہوار ہو، سیدخورشید اس میں شامل ہوکر سماجی ہم آہنگی کی مثال پیش کرتے ہیں۔ سرودھرم سدبھائو کے اصولوں پر چلتے ہوئے انہوں نے سماجی خدمت کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا ہے۔ مذہب، ذات، فرقہ پرستی سے اوپر اٹھ کر ضرورتمندوں کے خدمت کے لئے ہمیشہ تیاررہتے ہیں۔ انکا خاندانی پس منظر بھی سماجی ہے۔ وہ تین بھائی اور تین بہن ہیں۔ ان کے پریوار کے سبھی اراکین کی سماجک سروکار کو توجہ دیتے ہیں۔سید خورشید اختر آل انڈیا سماجک ادارہ قومی اتحاد مورچہ جھارکھنڈریاست کے کوآرڈینٹر ہیں۔ وہ شہرت یافتہ غیر سرکاری انسانی حقوق کی تنظیم انسانی حقوق تنظیم کے جھارکھنڈ ریاست کے نائب صدر ہیں۔ وہ کانکے روڈ پر واقع مدرسہ شرعیہ بیٹھاکے سرپرست بھی ہیں۔ معاشرے کے کسی بھی طبقے کے لوگوں کے مسائل ہوں، کسی کے ساتھ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا معاملہ ہو، امن چین کا خطرہ ہو، فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر آنچ آ رہا ہو، غریب لڑکیوں کی شادی پیسے کی کمی کی وجہ کرنہیں ہو پا رہا ہو، غریب بچوں کا اسکولوں میں داخلہ نہیں ہو پا رہا ہو،سید خورشید اختر ان مسائل کے حل کے لئے ہمیشہ سنجیدہ اور آگے دکھیںگے۔ ان کے ساتھی کے طور پر امن پسند لوگوں کی مضبوط ٹیم ہے۔ جو سماجی ہم آہنگی کو برقرار رکھنے میں ان کا ہر ممکن تعاون کرتےہیں۔ وہ مختلف مذاہب کے تہوارکے موقع پر استقبالیہ کیمپ کا بھی لگاتے ہیں۔ وہ سماجی تنظیموں کے علاوہ سیاسی جماعتوں کا بھی اعلان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سماجی کاموں میں سیاست کو شامل نہ کریں۔ سیاست سے اوپر اٹھ کر سماجی خدمت کو ترجیح دیں۔ تبھی انسان ہونے کا مطلب پورا ہوسکتا ہے۔